"جب عزت گئی بھاڑ میں، اور مشہوری بن گئی مقصد'

کہتے ہیں، اگر انسان خود اپنی عزت نہ کرے تو دنیا کیا خاک کرے گی! میں نے یہ بات بچپن میں کئی بار سنی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ جملہ صرف کتابوں یا بڑوں کی نصیحتوں میں رہ گیا ہے۔ آج کا انسان، خاص طور پر جب سوشل میڈیا کی روشنی اس پر پڑتی ہے، اپنی عزت، سچائی اور قوم کے جذبات کو چند ویوز، فالوورز اور لائکس کے بدلے نیلام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اور جب انسان کا مقصد صرف اور صرف شہرت بن جائے تو پھر وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ چاہے اسے رونا پڑے، جھوٹ بولنا پڑے، یا کسی کی کردار کشی کرنی پڑے۔
یہ سب کچھ میں یوں نہیں کہہ رہا، بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل سے محسوس کیا ہے۔ اور جب یہ سب کچھ اپنے ہی پختون بھائیوں سے ہوتا دیکھتا ہوں، تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ وہ پختون قوم جسے دنیا غیرت، حیا، اور عزت کا نشان مانتی ہے — جب اسی قوم کے کچھ افراد اس کے وقار کا سودا کرتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
یہ کہانی ہے دو شخصیات کی طاہر خان اور شاہد انور کی۔
طاہر خان، وہ شخص جو خلیجی ملک میں ملازمت کرتا تھا۔ سوشل میڈیا پر مشہور ہوا، اور شاید یہ 2016 یا 2017 کی بات ہے جب اس کے پاس کچھ پیسے آ جاتے ہیں۔ جاب چھوڑ کر پاکستان آتا ہے، اور ٹریول ایجنسی کا کام کرتے ہوئے TKR کے نام سے ہوٹلنگ کا آغاز کرتا ہے۔ پختونوں کی محبت، سوشل میڈیا پر مثبت سوچ، اور ایک اچھا امیج اسے مزید شہرت دلاتا ہے۔ وہ اسلام آباد میں ایک کاروباری شخصیت کا پیسہ استعمال کرتے ہوئے ہوٹل بنواتا ہے۔ صوابی کے قریب دوسرا ہوٹل کھولتا ہے، اور پھر اسلام آباد میں ایک اور برانچ کے ساتھ کافی شاپ بھی قائم کرتا ہے۔ بعد میں وہ لندن کے شہر بریڈفورڈ جا پہنچتا ہے جہاں 'TKR' کا بین الاقوامی آغاز ہوتا ہے۔
دوسری طرف شاہد انور، ایک ایسا بندہ جس کی کچھ باتوں سے میں متفق ہوں، لیکن جب وہ اساتذہ کی بے حرمتی کرتا ہے تو اس سے گھٹیا شخص کوئی نہیں لگتا۔ تعلیم حاصل نہیں کر سکا، غریب خاندان سے تھا، خلیجی ملک اور پھر ملائیشیا گیا، اور 2017 میں ایمازون پر کاروبار شروع کیا۔ پھر سوشل میڈیا پر مخصوص ڈائیلاگ "غریبو!" کے ذریعے مشہور ہوا۔ پختون ایک سادہ دل قوم ہے، جان قربان کرنے والی قوم ہے، تو لوگ اسے بھی آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں۔
لیکن اصل چہرہ تب سامنے آتا ہے جب یہ دونوں حضرات ایک چیپ مارکیٹنگ سٹنٹ کی پلاننگ کرتے ہیں۔
شاہد انور سیلاب کے موقع پر عمران خان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے، سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو جاتا ہے۔
پھر طاہر خان اسلام آباد ایئرپورٹ پر ویڈیو بناتا ہے جس میں روتے ہوئے کہتا ہے:
"میں ایمرجنسی میں UK جا رہا ہوں، میرے اپنے پاکستانیو نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔"
لوگ سوال کرتے ہیں، جواب نہیں آتا، مگر بحث ضرور شروع ہو جاتی ہے۔
لندن جا کر ہوٹل کے باہر ایک اور ویڈیو بناتا ہے، پھر اگلی ویڈیو میں شاہد انور پر الزام لگاتا ہے کہ:
"تم نے چودہ ہزار پانچ سو پاؤنڈ میں میرا یوکے والا TKR بیچ دیا اور خود دبئی بھاگ گئے۔"
اب عوام کی ہمدردیاں طاہر خان کے ساتھ ہو جاتی ہیں، اور شاہد انور کی بھی مارکٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔
پھر ایک ویڈیو میں نیا ہوٹل دکھایا جاتا ہے، جہاں طاہر خان شاہد انور کی شلاجیت ڈرنک ہاتھوں میں لے کر ہنستے ہوئے کہتا ہے:
"شاہد انور، یہ شلاجیت بیچ بیچ کر TKR کو واپس کروں گا!"
پختون عوام شک میں پڑ جاتی ہے۔
پھر ایک اور ویڈیو آتی ہے جس میں طاہر خان کے ہاتھ میں شلاجیت ہوتا ہے، اور پیچھے TKR کا ہوٹل نظر آتا ہے۔
کیپشن میں لکھا ہوتا ہے:
Two international brands of two self made brothers Alhamdullah
اور تب پوری قوم کو سمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اسکرپٹڈ، چیپ، اور گھٹیا مارکیٹنگ سٹنٹ تھا انہوں نے پختون قوم کی سادگی، محبت اور جذبات کو صرف اپنی پروموشن کے لیے استعمال کیا۔ہہی تو ہے آج کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی حقیقت!
ویڈیو لیکس، جھوٹے الزامات، رونا دھونا، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، کیونکہ آج سوشل میڈیا پر "نیگیٹو پبلسٹی بھی پبلسٹی ہے"۔اور یہی کچھ ان دونوں نے کیا، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے:کہ ان دونوں نے پختون قوم کو تماشہ بنایا۔
آخری بات پختون قوم سے پیغام
پختون قوم ایک غیرت مند، باحیا، اور عزت دار قوم ہے۔
لیکن کچھ افراد اپنی ذاتی مفادات، شہرت، اور پیسے کی ہوس میں اس قوم کو استعمال کر کے اس کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں۔
ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ہم سب پر فرض ہے۔
یاد رکھیں!
جو شخص سوشل میڈیا پر روتا ہے، الزامات لگاتا ہے، اور قوم کے جذبات کو ہتھیار بناتا ہے — وہ آپ کی عزت نہیں کر رہا، وہ صرف اپنی جیب بھر رہا ہے۔
ایسے لوگوں پر بھروسہ نہ کریں جو پختون قوم کی بے عزتی کا باعث بنیں!
Powered by Froala Editor
مصنف کے بارے میں

مصنف کالم نگار،بچوں کا لکھاری، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں