گلوبل وارمنگ ایک عالمی چیلنج۔ ہم کس قدر غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں

گلوبل وارمنگ ایک عالمی چیلنج۔ ہم کس قدر غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں
photo by Pixabay
ماحولیات2025/06/24

گلوبل وارمنگ ایک عالمی چیلنج ہے جو دن بہ دن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا بڑھنا ہے۔ ان گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ شامل ہیں جو سورج کی حرارت کو زمین پر تو آنے دیتی ہیں مگر واپس خلا میں جانے سے روکتی ہیں۔ اس عمل سے زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہے، جسے ہم گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔


پاکستان اگرچہ دنیا کے ان ممالک میں شامل نہیں جن کا کاربن اخراج زیادہ ہے، مگر یہ ملک ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پاکستان کا محلِ وقوع، معیشت کا انحصار زراعت پر، کمزور انفراسٹرکچر، اور بڑھتی ہوئی آبادی وہ عوامل ہیں جو اس کے لیے گلوبل وارمنگ کو ایک بڑا خطرہ بنا رہے ہیں۔


گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، طوفانی سیلاب، برفانی علاقوں میں گلیشیئرز کا پگھلنا، اور زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی نے نہ صرف انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے بلکہ معیشت، زراعت، صحت، تعلیم اور مواصلاتی نظام جیسے شعبوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔


2022 کے سیلاب کی مثال ہی لے لیجیے۔ اس قدرتی آفت نے پاکستان کی تاریخ کے بدترین انسانی، مالی اور ماحولیاتی نقصانات کا باعث بنی۔ اس سانحے میں 33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے، ہزاروں دیہات اور بستیاں زیرِ آب آ گئیں، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہو گئی اور سینکڑوں ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ سب کچھ محض بارش کی زیادتی یا دریا کے بند ٹوٹنے کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی بے اعتدالی اہم عوامل تھے۔


شمالی علاقہ جات میں گلیشیئرز کا پگھلنا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ گلیشیئرز قدرتی آبی ذخیرے ہیں جو موسمِ گرما میں پگھل کر دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ مگر اب یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے نہ صرف پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے بلکہ گلاف (Glacial Lake Outburst Floods) جیسے خطرناک مظاہر بھی سامنے آ رہے ہیں جو یکایک آنے والے سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔


پاکستان کی زراعت گلوبل وارمنگ سے براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔ فصلوں کے اگنے کا موسم غیر یقینی ہو گیا ہے۔ کبھی بارش بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو کبھی بالکل نہیں ہوتی۔ گندم، چاول، کپاس اور گنے جیسی فصلیں اس تبدیلی سے متاثر ہو رہی ہیں۔ کیڑوں کی نئی اقسام اور بیماریاں فصلوں کی پیداوار کو مزید کم کر رہی ہیں، جس سے خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔


صحت کے شعبے میں بھی گلوبل وارمنگ کے اثرات نمایاں ہیں۔ ہیٹ اسٹروک، پانی سے پھیلنے والی بیماریاں، ڈینگی، ملیریا اور سانس کی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کراچی جیسے شہروں میں گرمی کی شدت جان لیوا حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں ہر سال درجنوں اموات صرف گرمی کی لہر سے ہوتی ہیں۔


حکومت پاکستان نے ماحولیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے چند اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سرفہرست 'ٹین بلین ٹری سونامی' منصوبہ ہے جس کا مقصد ملک بھر میں 10 ارب درخت لگانا ہے تاکہ فضا کو صاف کیا جا سکے اور زمین کے درجہ حرارت کو کم کیا جا سکے۔ اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔


ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 2012 میں 'نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی' متعارف کرائی گئی، جسے بعد ازاں 2021 میں اپڈیٹ کیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت مختلف اداروں کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ فوسل فیولز پر انحصار کم کیا جا سکے۔


بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ پیرس معاہدہ ہو یا اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں، پاکستان نے ہر پلیٹ فارم پر موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ 2022 کی اقوام متحدہ کی COP27 کانفرنس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کی تقریر نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔


تاہم ان حکومتی اقدامات پر عملدرآمد کے حوالے سے کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ کچھ منصوبے صرف کاغذوں میں محدود ہیں، کچھ میں شفافیت کا فقدان ہے، اور کچھ میں عوامی شمولیت کی کمی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ ایک ایسا معاملہ ہے جو صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ ہر فرد کا فرض ہے۔


اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو تعلیم اور شعور کی سطح پر کام کرنا ہوگا تاکہ عوام کو اس بحران کی شدت کا احساس ہو۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے اجاگر کرے۔


قانون سازی اور ان پر عملدرآمد بھی نہایت ضروری ہے۔ ماحول دشمن صنعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ فضائی اور آبی آلودگی کم کریں۔ شہری منصوبہ بندی کو ازسرنو تشکیل دیا جائے تاکہ شہروں میں درختوں، پارکوں اور سبز جگہوں کی گنجائش بڑھائی جا سکے۔


پاکستان کو اپنی آبی پالیسی پر ازسرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیمز کی تعمیر، پانی کے ذخائر کا انتظام، جدید آبپاشی کے نظام اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔


عالمی برادری کو بھی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگرچہ پاکستان کا ماحولیاتی بگاڑ میں کردار محدود ہے، مگر اس کے اثرات کا بوجھ یہ ملک پوری شدت سے اٹھا رہا ہے۔ موسمیاتی فنڈز، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور بین الاقوامی تعاون اس مسئلے کا حل نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


گلوبل وارمنگ ایک خاموش قاتل ہے جو ہماری فضا، پانی، زمین، صحت، خوراک اور معیشت کو تباہ کر رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اس کے خلاف مشترکہ اور سنجیدہ اقدام نہ کیے تو آنے والے وقت میں حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ حکومت، ماہرین، ادارے، میڈیا اور عوام سب کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں ایک محفوظ اور صاف ستھری دنیا میں زندگی گزار سکیں۔

Powered by Froala Editor

مصنف کے بارے میں

ممتاز بنګش
ممتاز بنګش

ممتاز بنگش مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور صحافت کے میدان میں بیس سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں