اہم خبر: افغان مہاجرین کی جبری واپسی انسانیت کے منافی فعل قرار

اہم خبر: افغان مہاجرین کی جبری واپسی انسانیت کے منافی فعل قرار
وفاقی حکومت نے حال ہی میں ملک میں ایسے تمام غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ فوٹو ملت نیوز ارکائیو
پاکستان2025/10/21

خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو ہنگامی یا جبری طور پر کیمپوں سے بےدخل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان دہائیوں پر محیط مذہبی، ثقافتی اور خاندانی رشتے ہیں، اس لیے افغان مہاجرین کا مسئلہ محض قانونی نہیں بلکہ انسانی اور اخلاقی نوعیت کا ہے۔


صوبائی اسمبلی میں 20 اکتوبر کو اپنے تفصیلی خطاب کے دوران وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اس وقت 43 رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ کیمپ موجود ہیں، جن میں لاکھوں افغان مہاجرین کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد نے صوبے میں کاروبار، تجارت، تعمیرات اور مزدوری کے شعبوں میں اپنا روزگار قائم کیا ہے جبکہ ان کے ہزاروں بچے مقامی اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ "یہ لوگ اب صرف مہاجر نہیں رہے بلکہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی واپسی اگر کرنی بھی ہو تو یہ عمل منظم، باعزت اور مرحلہ وار ہونا چاہیے تاکہ کسی خاندان کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔"


سہیل آفریدی نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جس کے تحت 15 اکتوبر کو خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے تمام کیمپ غیر قانونی قرار دے کر ان میں مقیم افراد کو پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ "وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظرِثانی کرے، کیونکہ فوری انخلا نہ صرف انسانی المیہ پیدا کر سکتا ہے بلکہ صوبے میں امن و امان کے مسائل بھی بڑھا سکتا ہے۔"


وزیرِاعلیٰ نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ مل کر ایک ایسا لائحۂ عمل تیار کرے گی جس کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی بین الاقوامی اصولوں، انسانی حقوق اور دوطرفہ تعلقات کے دائرے میں کی جائے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں سے بھی اپیل کی کہ وہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی میں اپنا کردار ادا کریں۔


سہیل آفریدی نے کہا کہ وہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم عمران خان سے جیل میں ملاقات کریں گے تاکہ اس معاملے پر جماعتی سطح پر مشاورت ہو سکے۔ ان کے مطابق، "یہ فیصلہ صرف انتظامی نہیں، بلکہ ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ ہے، جس پر وسیع اتفاقِ رائے ضروری ہے۔"


واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں ملک میں ایسے تمام غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ اس پالیسی کے تحت تقریباً 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو 31 اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔


یہ بھی پڑھیں:

افغان مہاجرین کہیں نہیں جائیں گے، اہم ترین وضاحت آگئی

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر تقریباً 38 لاکھ افغان شہری مقیم ہیں، جن میں سے 18 لاکھ کے پاس اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رجسٹریشن کارڈز موجود ہیں، جب کہ 17 لاکھ سے زائد ایسے ہیں جو بغیر کسی قانونی حیثیت کے رہائش پذیر ہیں۔


انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ موسمِ سرما کے آغاز پر لاکھوں افغان خاندانوں کی جبری واپسی ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔


ادھر افغان حکومت نے بھی پاکستان کے فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین کے مسائل کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے دونوں ملکوں کو باہمی بات چیت اور تعاون کے ذریعے حل تلاش کرنا چاہیے۔


خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ "پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے، اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی واپسی بھی اسی جذبے کے ساتھ ہو۔ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو ہماری مشترکہ تاریخ اور انسانی اقدار کے منافی ہو۔"

Powered by Froala Editor

مصنف کے بارے میں

ممتاز بنگش
ممتاز بنگش

ممتاز بنگش مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور صحافت کے میدان میں بیس سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں