بھارت: خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں تشویشناک اضافہ، طالبہ زیادتی کا شکار

مغربی بنگال کے صنعتی شہر دُرگاپور میں ایک نجی میڈیکل کالج کی حدود میں اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والی دوسری سال کی میڈیکل طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ برس کولکاتہ کے آر۔جی۔کر میڈیکل کالج میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد ریاست میں شدید غم و غصہ پھیل گیا تھا۔
پولیس کے مطابق، متاثرہ طالبہ جمعہ کی رات تقریباً آٹھ بج کر تیس منٹ پر اپنے ایک مرد دوست کے ساتھ کالج کیمپس سے باہر گئی تھی تاکہ پھُچکا (گول گپے) کھا سکے۔ اسی دوران ایک نامعلوم شخص اُسے کالج کے مرکزی دروازے کے قریب واقع ایک سنسان جگہ پر گھسیٹ کر لے گیا اور اُس کے ساتھ زیادتی کی۔
متاثرہ طالبہ کو بعد ازاں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اُس کا علاج جاری ہے۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے CCTV فوٹیج کی مدد سے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ تاہم تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
متاثرہ کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کی بیٹی کو اُس کے دوست واسف علی نے باہر بلایا تھا۔ اُن کے مطابق، “جب وہ گیٹ پر پہنچی تو وہاں چار سے پانچ لوگ موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے اُس کے ساتھ زیادتی کی، اُس کا موبائل فون چھین لیا اور فون واپس کرنے کے لیے 3,000 روپے کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں اُس کے دوست نے اُسے واپس پہنچایا۔”
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم — نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کے اعداد و شمار
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کے مطابق، سال 2023 میں بھارت بھر میں 4,48,211 خواتین کے خلاف جرائم رپورٹ ہوئے۔
ان میں سے 28,821 کیسز ریپ (زیادتی) کے تھے، جبکہ نابالغ لڑکیوں کے ساتھ ریپ کے 849 کیسز درج ہوئے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق خواتین کے ساتھ بدسلوکی یا جنسی ہراسانی کے 83,891 کیسز درج ہوئے۔
اغوا و جبری شادی سے متعلق 88,605 کیسز رپورٹ ہوئے۔
پولیس نے مجموعی طور پر 77.6 فیصد کیسز میں چارج شیٹ داخل کی۔
تاہم ریپ کیسز میں سزا کی شرح صرف 27 سے 28 فیصد رہی، جو انصاف کے نظام پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔
عالمی تناظر میں بھارت کی پوزیشن
عالمی سطح پر بھارت میں رپورٹ شدہ ریپ کی شرح 2.8 فی ایک لاکھ افراد بتائی گئی ہے، جبکہ نیشنل ڈیٹا کی بنیاد پر خواتین کے لحاظ سے یہ شرح تقریباً 4.8 فی ایک لاکھ ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ شرح حقیقت سے کم ہے کیونکہ بھارت میں جنسی جرائم کی رپورٹنگ اب بھی معاشرتی دباؤ، سماجی بدنامی اور پولیس کارروائی کے خوف کے باعث محدود ہے۔
اقوامِ متحدہ (UNODC) اور بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں “ریپ” کی قانونی تعریف اور رپورٹنگ کے طریقۂ کار مختلف ہونے کی وجہ سے براہِ راست موازنہ ممکن نہیں۔
البتہ 2018 میں Thomson Reuters Foundation کے ایک سروے نے بھارت کو “دنیا کا سب سے زیادہ خواتین کے لیے خطرناک ملک” قرار دیا تھا، جس میں جنسی تشدد، انسانی اسمگلنگ اور خواتین پر گھریلو تشدد جیسے عوامل شامل تھے۔
سماجی ردعمل اور پولیس کا مؤقف
دُرگاپور واقعے کے بعد ریاست بھر میں ایک بار پھر خواتین کی سلامتی کے حوالے سے تشویش بڑھ گئی ہے۔ طلبہ تنظیموں نے کالجوں میں حفاظتی اقدامات بڑھانے اور پولیس گشت میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ “واقعے کی تفصیلی تفتیش جاری ہے، اور حقائق سامنے آنے پر ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔”
Powered by Froala Editor
مصنف کے بارے میں

ممتاز بنگش مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور صحافت کے میدان میں بیس سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں