پاکستان میں 15 سال تک کے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے ملک بھر میں انسداد پولیو کی نئی اور وسیع تر مہم کا فیصلہ کیا ہے، جس میں پہلی بار 15 سال تک کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نشریاتی ادارے جی نیوز کی ویب سائٹ پر شاتع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ جمال نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ چاروں صوبوں میں نافذ ہو چکا ہے، جس کا دائرہ کار ابتدائی طور پر کراچی، لاہور، پشاور اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع تک بڑھایا گیا ہے جہاں وائرس کے پھیلاؤ کے شواہد ماحولیاتی نمونوں میں سامنے آئے ہیں۔
وزیر صحت نے کہا کہ یہ اقدام نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (NEOC) کی سفارش پر اٹھایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پانچ سال کی عمر سے زائد بچوں میں بھی وائرس کی منتقلی کے شواہد ملے ہیں جس کے بعد عمر کی حد بڑھانے کا فیصلہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "یہ فیصلہ صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے، جس کا مقصد آنے والی نسلوں کو معذوری سے بچانا اور پاکستان کو پولیو فری ملک بنانا ہے۔"
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس خصوصی مہم میں پیدائش سے لے کر 15 سال تک کی عمر کے تقریباً 1 کروڑ 3 لاکھ بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
جنوبی خیبرپختونخوا کے حوالے سے NEOC کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ مہم نو (9) ہائی رسک اضلاع میں چلائی جائے گی، جن کے ماحولیاتی سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
اگرچہ ان تمام اضلاع کی تفصیلی فہرست تاحال عوامی طور پر جاری نہیں کی گئی، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق ان میں لکی مروت، بنوں، جنوبی وزیرستان اور پشاور شامل ہیں۔ ان اضلاع کا انتخاب ان کی سابقہ پولیو تاریخ، موجودہ ماحولیاتی خطرات اور سیکیورٹی حالات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسیف نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کو بروقت اور سائنسی بنیادوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دونوں اداروں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے پاکستان جیسے حساس ملک میں پولیو کے مکمل خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ فیصلہ حالیہ ہفتوں میں ملک بھر سے موصول ہونے والے وائرس سے آلودہ ماحولیاتی نمونوں، خاص طور پر سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے سامنے آنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ مہینوں میں جنوبی خیبرپختونخوا میں سامنے آنے والے پولیو کیسز نے بھی عمر کی حد میں توسیع کو ضروری بنا دیا۔
وفاقی وزیر صحت نے عوام، خصوصاً والدین، اساتذہ، اور مذہبی و قبائلی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس انسداد پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خلاف یہ جنگ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی ہے، اور صرف اجتماعی کوششوں سے ہم اس موذی مرض کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتے ہیں۔
ابھی تک مہم کی حتمی تاریخ کا فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم قوی امکان ہے کہ مہم اگست کے مہینے میں شروع کی جا سکتی ہے جس کے لیے تیاری اور یونین کونسل کی سطح پر بچوں کا ٹارگٹ اکٹھا کرنے اور مائیکرو پلان بنانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔
2025 میں اب تک پاکستان میں پولیو کے تیرہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب اور گلگت بلتستان سے ہے۔ حالیہ مہینوں میں بنوں، لکی مروت، ٹانک، دیامر، منڈی بہاؤالدین، بدین، لاڑکانہ، کامبر اور ٹھٹھہ جیسے اضلاع سے پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ان کیسز کے علاوہ ماحولیاتی نمونوں میں بھی وائرس کی مسلسل موجودگی اس خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اگر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ 2024 میں پاکستان میں پولیو کے کل 74 کیسز سامنے آئے تھے جن میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب اور اسلام آباد کے مختلف علاقے شامل تھے۔
افغانستان کی صورت حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ رواں سال 2025 میں وہاں اب تک دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ایک کا تعلق صوبہ بَدغیس کے علاقے بالا مرغاب سے ہے اور دوسرا ہلمند سے رپورٹ ہوا ہے۔ گزشتہ برس 2024 میں افغانستان میں کل 25 کیسز سامنے آئے تھے جن میں قندہار، ہلمند، ارزگان اور نورستان جیسے صوبے شامل تھے۔ یہ تمام اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کو اب بھی پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے مسلسل اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، تاکہ جنوبی ایشیا کو اس موذی مرض سے ہمیشہ کے لیے پاک کیا جا سکے۔
Powered by Froala Editor
مصنف کے بارے میں

ممتاز بنگش مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور صحافت کے میدان میں بیس سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں