پیوٹن اور ٹرمپ کے مابین طویل فون کال۔ ایران ایک بار پھر زیربحث

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جمعرات کے روز ایک گھنٹہ طویل اہم فون کال ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے یوکرین میں جاری جنگ، ایران کی کشیدہ صورتحال اور عالمی سلامتی سے جڑے دیگر حساس معاملات پر تفصیلی بات چیت کی۔
کریملن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، اس گفتگو کا آغاز مشرق وسطیٰ، بالخصوص ایران سے متعلقہ سیکیورٹی معاملات سے ہوا۔ دونوں صدور نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خطے میں فوجی تصادم کو روکنے کے لیے سیاسی اور سفارتی ذرائع کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔
فون کال کا دوسرا اہم پہلو یوکرین میں جاری جنگ تھا۔ پیوٹن نے واضح الفاظ میں کہا کہ روس اپنے اسٹریٹیجک مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا، تاہم ماسکو سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جنگ کے فوری خاتمے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ یوکرین کے صدر کے ساتھ بھی جلد براہِ راست بات کریں گے تاکہ ایک قابلِ عمل امن روڈمیپ پر اتفاق ممکن ہو سکے۔
دریں اثنا، امریکی محکمہ دفاع نے یوکرین کو بھیجے جانے والے بعض حساس ہتھیاروں، جن میں پیٹریاٹ میزائل سسٹم بھی شامل ہے، کی فراہمی کو وقتی طور پر روک دیا ہے۔ روسی حکام نے اس پیش رفت کو "مثبت علامت" قرار دیا ہے، تاہم کسی بھی عملی رعایت کا دارومدار آئندہ مذاکرات کی پیش رفت پر رکھا گیا ہے۔
بحران میں ڈائیلاگ کی روایت
یہ فون کال دراصل دونوں ممالک کے مابین حالیہ مہینوں میں جاری براہِ راست صدارتی رابطوں کی کڑی ہے۔ ٹرمپ کے رواں سال کے آغاز میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پیوٹن سے یہ ان کی تیسری براہ راست گفتگو ہے، جن کا مقصد عالمی کشیدگی میں کمی اور نئی پالیسی جہتوں کی تلاش کرنا ہے۔
مئی 2025 میں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد پہلی کال میں دونوں نے سفارتی تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے اور باہمی احترام کی بنیاد پر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا تھا۔
جون 2025 میں ایران کی صورتحال پر بات چیت کے دوران دونوں صدور نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اگرچہ مؤقف میں واضح فرق برقرار رہا۔
جون کے اواخر میں ہونے والی تیسری کال میں یوکرین پر جنگ بندی اور نیٹو کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، جس میں روس نے نیٹو کی توسیعی حکمت عملی پر شدید تحفظات ظاہر کیے۔
ان تمام رابطوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں عالمی طاقتیں شدید تناؤ کے باوجود براہ راست ڈائیلاگ کو ترجیح دے رہی ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر سرد جنگ جیسے خدشات ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔
یورپی خدشات اور بین الاقوامی تناظر
یورپی یونین، خاص طور پر فرانس اور جرمنی، نے واشنگٹن اور ماسکو کے ان یکطرفہ روابط پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور موقف اختیار کیا ہے کہ یوکرین کے مسئلے پر کوئی بھی مذاکراتی عمل کیف کی براہ راست شرکت کے بغیر غیر مؤثر اور یک طرفہ تصور کیا جائے گا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق، اگرچہ پیوٹن–ٹرمپ روابط سے کسی فوری جنگ بندی کی امید وابستہ کرنا قبل از وقت ہوگا، لیکن یہ سفارتی کوششیں خطے میں کشیدگی کم کرنے اور ایک نیا عالمی توازن قائم کرنے کی جانب ابتدائی قدم ضرور ہیں۔
Powered by Froala Editor
مصنف کے بارے میں

ملت نیوز ویب سائٹ صحافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان۔ افغانستان، خیبر پختونخوا اور دنیا بھر کی تازہ خبروں کا ایک با اعتماد ذریعہ ہے