متقی کا دورہ بھارت: افغانستان مہرہ ہے، بادشاہ نہیں!

متقی کا دورہ بھارت: افغانستان مہرہ ہے، بادشاہ نہیں!
امیر خان متقی نے پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اقوام متحدہ نے اجازت نہیں دی تھی۔ تصویر سوشل میڈیا
دنیا2025/10/11

جنوبی ایشیا میں طاقت کی بساط تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس نئی صف بندی کے مرکز میں افغانستان ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا حالیہ دورۂ بھارت نہ صرف کابل اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی قربت کا مظہر ہے بلکہ یہ پورے خطے میں نئی سفارتی حرکیات کو جنم دیتا ہے۔


یہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بھارت اور افغانستان کے درمیان پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات تھی۔ ملاقات کے دوران بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اعلان کیا کہ بھارت کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولے گا جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان کابل کے لیے ایک اہم علامتی کامیابی ہے اور بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک موقع کہ وہ افغانستان میں اپنا اثر دوبارہ بحال کرے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ہفتے قبل امیر خان متقی نے پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر انہیں اقوامِ متحدہ کی جانب سے سفری دستاویزات اور اجازت نامے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں عائد ہیں جن کے باعث ان کے بیرونی دورے کے لیے خصوصی منظوری درکار ہوتی ہے۔ تاہم، حیران کن طور پر، انہیں بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت تیزی سے مل گئی۔ اس صورتحال نے مبصرین کے لیے کئی سوالات کھڑے کیے ہیں کہ کیا عالمی طاقتیں بالخصوص مغرب اور امریکہ طالبان کے بھارت سے بڑھتے روابط کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ قابلِ قبول سمجھتی ہیں؟


یہ سوال ایک بڑی دوغلی پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب متقی پاکستان جانا چاہتے تھے، اقوامِ متحدہ کے طریقہ کار سخت اور غیرلچکدار دکھائی دیے، لیکن جیسے ہی بھارت کا معاملہ آیا، اجازت فوراً فراہم کر دی گئی۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ بین الاقوامی قوتیں طالبان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو سفارتی طور پر نرم اور مفید تصور کرتی ہیں، جب کہ پاکستان کے ساتھ روابط کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو خطے کے توازن کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔


پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پہلے ہی نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ اسلام آباد کی شکایت ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو افغان سرزمین سے حملے کرتے ہیں، جبکہ طالبان حکومت ان الزامات کو پاکستان کی داخلی ناکامی قرار دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں افغان وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے کابل، خوست اور پکتیکا کے علاقوں میں فضائی حملے کیے ہیں۔ اسلام آباد نے ان حملوں کی تصدیق نہیں کی، لیکن یہ الزام دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے فاصلے کو ظاہر کرتا ہے۔


ایسے حالات میں متقی کا بھارت کا دورہ طالبان حکومت کے لیے ایک نئی خارجہ سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ کابل اب پاکستان اور چین پر انحصار کم کرکے اپنی سفارتی پالیسی کو کثیر جہتی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ ایک متوازن خارجہ پالیسی ہی انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔


افغانستان کے لیے چین کے ساتھ تعلقات بظاہر معاشی امکانات رکھتے ہیں، لیکن ان کے اندر خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔ چین افغانستان کے معدنی وسائل خاص طور پر لیتھیم اور تانبا میں دلچسپی رکھتا ہے، مگر اس کی سرمایہ کاری اکثر قرضوں اور طویل مدتی کنٹرول کے ساتھ آتی ہے۔ طالبان جانتے ہیں کہ اگر وہ غیر مشروط طور پر چین کے قریب جائیں گے تو وہ بیجنگ کے معاشی اثر و رسوخ میں جکڑے جا سکتے ہیں۔


دوسری جانب افغان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں اگرچہ ماضی میں اسلام آباد نے طالبان کی سیاسی اور سفارتی حمایت کی، مگر آج دونوں کے درمیان اعتماد کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے دراندازی اور دہشت گرد حملوں کی شکایات ہیں۔  چند مہینے پہلے بھی ژوب میں ایک دہشت گرد حملے میں افغانستان کے جنگجو بھی مارے گئے تھے جن کی لاشیں جرگے کے بعد افغانستان روانہ کر دی گی تھیں اس کے باوجود افغانستان پاکستان کی جانب سے لگائے گئے وہ الزامات کو رد کر رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان پر حملوں اور ان حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے۔ طالبان کے اس رویے کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا اور متقی کے حالیہ دورہ بھارت اور اقوان متحدہ کی جانب سے انہیں اجازت مل جانا پاکستان کے تمام تر خدشات کو وجود دینے کے مترادف ہے اور یوں ان حالات میں بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا کابل کے لیے ایک اسٹریٹجک متبادل بن کر ابھرا ہے۔


بھارت کے لیے بھی افغانستان کی واپسی انتہائی اہم موقع ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت وہاں انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور تعمیراتی منصوبوں میں سرگرم کردار ادا کر رہا تھا۔ نئی دہلی جانتا ہے کہ اگر وہ افغانستان سے الگ رہا تو وہاں کا خلا چین اور پاکستان پُر کر لیں گے۔ اس لیے بھارت نے ایک محتاط مگر عملی انداز اپنایا ہے 


اس تمام تر صورتحال میں امریکہ کی خاموشی معنی خیز ہے کیونکہ امریکہ کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد خود امریکہ کے مفادات پر رکھی گئی ہے امریکہ کو یہ خاصیت بھی حاصل ہے کہ وہ بیک وقت کسی بھی ملک کا دوست اور دشمن بن کر رہا ہے۔ واشنگٹن کو براہِ راست طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں سیاسی مشکلات درپیش ہیں، اور ان تعلقات اور مفادات کے حصول کے لیے پاکستان اور چین کے گہرے اور دیرینہ تعلقات کے وجہ سے وہ بھارت کے ذریعے افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کچھ زیادہ ہی اعتماد محسوس کرے گا اسی لیے وہ چین کے بڑھتے اثر کو محدود کرنے کے لیے ہر ایسے قدم کا خیرمقدم کرتا ہے جو بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کرے۔ بھارت اور طالبان کے بڑھتے روابط امریکہ کے مفاد میں ہیں، کیونکہ اس سے ایک طرف چین کے منصوبے متوازن ہوتے ہیں، اور دوسری طرف پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھتا ہے۔


امریکہ طویل عرصے سے بھارت کو چین کے مقابلے میں علاقائی توازن کی قوت کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ انڈو پیسفک خطے میں QUAD اتحاد ہو یا وسطی ایشیا میں تجارتی راہیں  امریکہ بھارت کے کردار کو ایک مثبت قوت سمجھتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی واپسی دراصل واشنگٹن کے اس دیرینہ وژن کو تقویت دیتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام بھارت کے بڑھتے کردار سے ممکن ہے، نہ کہ چین یا پاکستان کے دباؤ سے۔


اسی لیے کچھ ماہرین کے نزدیک، متقی کو بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت ملنا محض اتفاق نہیں بلکہ سفارتی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ مغربی طاقتیں چاہتی ہیں کہ طالبان حکومت بین الاقوامی اصولوں سے قریب تر ہو، اور بھارت جیسے ملک کے ساتھ تعلقات اسی سمت میں ایک نرم قدم ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان کے ساتھ بڑھتے روابط انہیں طالبان کے “قدامت پسند” یا “غیر ذمہ دار” تاثر سے جوڑ دیتے ہیں جس سے مغرب گریز کرتا ہے۔


طالبان حکومت کے لیے یہ موقع اور چیلنج دونوں ہے۔ اگر وہ بھارت، چین، پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان متوازن پالیسی اپناتے ہیں، تو افغانستان کو حقیقی خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر اگر وہ کسی ایک محور  مثلاً چین یا بھارت کے ساتھ امریکہ کے قریب جانے پر پر انحصار کرتے ہیں، تو وہ دوبارہ عالمی طاقتوں کے کھیل کا مہرہ بن جائیں گے۔


امیر خان متقی کا بھارت کا دورہ اور پاکستان کا ملتوی شدہ دورہ، افغانستان کی بدلتی ترجیحات کی گواہی دیتے ہیں۔ طالبان اب سمجھ چکے ہیں کہ ایک ہی راستہ نہیں بلکہ کئی دروازے کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار خطے میں تشویش بھی بڑھا سکتے ہیں جہاں ایک طرف انہیں بھارت جانے کی اجازت فوراً مل جاتی ہے اور دوسری جانب پاکستان کے لیے روکا جاتا ہے اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان ابھی بھی عالمی سیاست کی شطرنج پر ایک مہرہ ہے، بادشاہ نہیں۔

Powered by Froala Editor

مصنف کے بارے میں

ممتاز بنګش
ممتاز بنګش

ممتاز بنگش مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور صحافت کے میدان میں بیس سال سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں